کیا عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے بنایا،2018 الیکشن جتوایا

سیبی کاظمی

اپ لوگ اکثر کچھ صحافیوں اور کچھ سیاسی جماعتوں بالخصوص نون لیگ پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ الزام سنتے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں بھی اسٹیبلشمنٹ نے مدد کی اور عمران خان کی حکومت بنائی گئی اس کی میں تھوڑی سی وضاحت اور تفصیل اپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ہے ادھا سچ اور ادھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اصف زرداری یا عمران خان یہ سب ایک جیسے ہیں یہ کبھی نہیں کہتے کہ ہم لوگ چور ہیں یہ کہتے ہیں ہم چور ہیں باقی بھی چور ہیں اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے الیکشن میں بالکل مدد نہیں کی البتہ حکومت بنانے میں انہوں نے مدد کی اور وہ کس طرح کی یہ بڑی باریک واردات تھی جو عمران خان نے خود بھی کہا کہ انہیں اس وقت حکومت نہیں بنانی چاہیے تھی الیکشن تحریک انصاف 2018 کا اپنی مدد اپ اور عوام کے تعاون سے بالکل نیٹ اینڈ کلین جیتی جو چند بے ضابطگیاں یا جو انفرادی معاملات ہوئے ہوں گے وہ ضرور ہوئے ہوں گے لیکن کسی بھی فورم پر کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی شخص کی طرف سے یا عمران خان کی طرف سے یا ان کی پارٹی کے کسی رہنما کی طرف سے ایسا بیان کبھی اپ کو نظر نہیں ائے گا کہ ہمیں الیکشن کی فلاس سیٹ اسٹیبلشمنٹ نے جتوائی جبکہ نون لیگ کی 2018 میں خواجہ اصف جو وزیر دفاع ہے اس کی نشست خود اسٹیبلشمنٹ نے بھی تسلیم کیا خود خواجہ اصف نے بھی تسلیم کیا کہ میں نے رات کو فون کیا اور پھر نتائج بدلے اور عثمان ڈار کو ہرایا گیا اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی مثالیں ہیں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا نون لیگ کے ساتھ تو ضرور ہوا البتہ تحریک انصاف کو کہیں سے الیکشن جتوایا نہیں گیا البتہ تحریک انصاف کو جس طرح عثمان ڈار کو الیکشن کروایا گیا اس طرح کم و بیش 18 سے 25 نشستوں پر زبردستی ہروایا گیا جب حکومت بنانے کا مرحلہ ایا تو ان لوگوں نے وہ امیدوار جو ہرائے گئے اور وہاں باپ پارٹی ایم کیو ایم اور ازاد امیدواروں کو جتوایا انہیں پیش کیا کہ انہیں اب اپ حکومت میں لیں اور اپ حکومت بنائیں اور اس کی وجہ یہی تھی کہ جب بھی حکومت گرانی ہو وہ باسانی ان لوگوں کو نیچے سے کھینچ لیں یہ بیساکھیاں ہٹا لیں اور پھر اپ نے دیکھا ادمی اعتماد کے معاملات میں وہی ہوا اب میں اپ کو تین واقعات جس کے ثبوت اور دلائل خود نون لی کے رہنما بھی دے چکے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی دے چکی ہے پہلا واقعہ جو یہ ثابت کرتا ہے اگر اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی حکومت بنائی ہوتی تو کبھی بھی تین مہینے کے بعد خاقان عباسی مفتا اسماعیل اور زبیر عمر جنرل باجوہ سے ملاقات کر کے معیشت کے حالات نہ بتا رہی ہوتے یاد رکھیں عمران خان کی حکومت ائی تھی اگست 2018 میں اور دسمبر 2018 میں ان کی ملاقات ہوئی خود کان عباسی کی سٹیٹ پر نان ریکارڈ ہے اگر اسٹیبلشمنٹ نے حکومت بنائی ہوتی تو دوسری مرتبہ سات مہینے کے بعد جولائی 2019 میں کبھی بھی جنرل باجوہ خواجہ اصف کو پنجاب کی حکومت افر نہ کرتا اور اس کے بعد پھر تیسری مرتبہ پورے ایک سال بعد 11 جون 2020 کرونا کے دنوں میں جب شہباز شریف پاکستان میں یہ افر کی جا رہی تھی حکومت کی جس کا ثبوت اس وقت کے تمام صحافیوں کی ٹویٹس موجود ہیں ریکارڈ پر پروگرام موجود ہیں اور جب بات نہیں بنی تو پھر شہباز شریف نے کرونا ہو جانے کا ڈرامہ رچایا اور کینسر مریض ہونے کا ڈرامہ رچایا جو کہ ثبوت تھا کہ اب انہیں حکومت نہیں ملے گی کیونکہ یہ کنٹرول نہیں کر سکتے اس وقت کے حالات اپ کو یاد ہوں گے ایسے لگ رہا تھا کہ اب دنیا ختم ہونے والی ہے یہ ایسے مرحلے میں ڈوبتا ہوا پاکستان نہیں لینا چاہتے تھے جسے عمران خان نے دوبارہ کھڑا کیا اور اس کے بعد پھر یہ لندن جا کے پھر واپس بھی ائے کو اخری جہاز کی فلائٹ پر بلوایا گیا پوری تقریر بھی لکھوا دی گئی لیکن دنیا کے بدلتے حالات نے انہیں مجبور کیا اور یہ حکومت عمران خان کی نہیں گرا سکے ورنہ تین مہینے, سات مہینے اور اس کے بعد پھر ڈیڑھ سال کے بعد تیسری مرتبہ افر کی گئی اور تینوں دفعہ ناکام ہونے کے بعد پھر چوتھی مرتبہ عدم اعتماد لا کر عمران خان کی حکومت گرائی گئی اور اس دفعہ ان کے لیے سب سے اہم معاملہ کہ امریکہ بھی عمران خان کا مخالف ہو چکا تھا کیونکہ افغانستان کا 15 اگست 2021 امریکہ کا انخلا بھی ہو چکا تھا اور امریکہ بھی عمران خان کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا جنرل فیض کو دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ یہاں افغانستان جا کے انہوں نے حکومت بنا دی تو پھر انہوں نے انہی لوگوں کو استعمال کیا جو حکومت بنانے میں تحریک انصاف کی نشستیں چھین کر جنہیں لگایا گیا تھا انہیں استعمال کر کے عدم اعتماد کی تحریک اور سائفر اس کی بنیاد بنا جنرل باجوہ کو امریکہ کی طرف سے مکمل پشت پنائی بائیڈن کی حکومت کی طرف سے ملی جو خود جنرل باجوا نے جا کے انہیں حالات بتائے ایسے میں یوکرین کا معاملہ شروع ہوا عمران خان کا دورہ بھی جنرل باجوا نے خود پری پلان عمران خان کو وہاں بھجوایا کہ اپ جائیں سستا تیل اور گندم لے کر ائیں اور امریکہ کو کہہ دیا کہ دیکھ لیں یہ تو اپ کا مخالف ہے اور پھر اپنے انہی لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے جنہیں الیکشن جتوایا گیا 2018 کا اور سندھ ہارس ٹریڈنگ منڈیاں لگائی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہو گئی جس میں ان کے ساتھ تعاون عمر بندیال کی حکومت نے کیا رات 12 بجے سپریم کورٹ کھول دی گئی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو تسلیم نہیں کیا گیا اور ائین اور پاکستان کا کھلواڑ کیا گیا جو پہلے بھی کیا جاتا تھا اس دفعہ فرق یہ تھا کہ عدم اعتماد کی رات عوام باہر نکل ائی عوام نے انہیں سرپرائز دیا ان کی مس کیلکولیشن ہوئی یہ خان کی مقبولیت کو سمجھ نہیں سکے اور پھر اس کے بعد ان کی تمام مس کیلکولیشن سامنے اتی گئی نہ کسی نے انہیں معیشت کے لیے پیسے دیے نہ یہ ملک سنبھال سکے لیکن اب چونکہ ان کا 76 سال کی تاریخ خطرے میں ان کا اقتدار خطرے میں ریاست کے اندر جو ریاست بنائی وہ خطرے میں کیونکہ عمران خان عوام میں اگیا عمران خان نے جلسوں کی سیریز شروع کر دی اب ان کے پاس حل نہیں تھا انہوں نے عمران خان کو اس وقت سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم یہ پہلے کر چکے ہیں نواز شریف بھی مان گیا بے نظیر بھی مان گئی زرداری بھی مان گیا الطاف حسین بھی مان گیا طاہر القادری بھی مان گیا سارے مان گئے اپ بھی مان جائیں تین سال کے لیے باہر چلے جائیں ہمیں یہ حکومت چلانے دیں اس کے بعد اپ دوبارہ ائیں تو دوبارہ یہی کھیل شروع کریں گے عمران خان نے انکار کر دیا خان چونکہ پہلے بھی ان کی مدد حکومت بنانے میں جو لی تھی اس سے سمجھ چکا تھا اور یاد رکھیں عمران خان کا یہ پہلی دفعہ اقتدار تھا نون لیگ پیپلز پارٹی تین تین چار چار دفعہ اقتدار میں ا چکی تھی یہ سارے کھیل جانتی تھی لیکن عمران خان صرف ائین اور قانون وہ ایک عام سیاسی رہنما تھا نہیں وہ ایک غیر روایتی سیاست دان جو پاکستان کو حقیقی معنوں میں بدلنا چاہتا ہے پھر ایک ادارے کے طور پر جو سوچ سامنے ائی جنرل باجوا کی اور اس کے بعد پھر ظلم و ستم کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو اج تک جاری ہے اس دوران خان کی بتائی ہوئی تمام باتیں درست ہوئیں اور عمران خان کو ہٹانے کے پہلے جو لندن پلان بنایا گیا اس میں وہی معاملات جو اج اپ کو ایکسٹینشن کے معاملات نظر ارہے ہیں اس وقت بھی جنرل باجوا چاہتا تھا کہ اسے ایک اور ایکسٹینشن ملے لیکن یہاں اس کی قسمت خراب کے نواز شریف نے انکار کر دیا کیونکہ وہ 2017 اپنے نکالنے کے معاملے کو جنرل باجوا کی ذمہ داری سمجھتا تھا جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن پر راضی نہیں ہوا نئے مالکان کے ساتھ ان کی ڈیل ہو گئی قاضی فائز عدالتوں میں اگیا انہوں نے الیکشن منسوخ کرائے ملک کا ائین توڑا قانون توڑا انصاف توڑا جمہوریت کے ٹکڑے ٹکڑے کیے میں ان کا ہمیشہ پردہ رہتا تھا ان پر کبھی الزام نہیں لگتا تھا ہائبرڈ نظام کے تحت کٹھپتلیاں سامنے ہوتی تھی پیچھے یہ بیٹھتے تھے لیکن اس دفعہ انہیں کھل کر سامنے بھی انا پڑا ہر ادارے نے اپنا اپنا کردار بھی سامنے رکھا اب یہ عمران خان کو قابو نہیں کر سکے کیونکہ اس کے ساتھ عوام تھی پھر انہیں عمران خان پہ قاتلانہ حملی بھی کروانے پڑے خان پھر بھی باز نہیں ایا تو پھر انہیں کیپیٹل ہل امریکہ میں جو حملہ ہوا وہاں سے یہ سوچ ائی کہ یہاں پر بھی ہمیں ایک نو مئی کی طرز پر حملہ کر کے پارٹی کو توڑنا ضروری ہے انہوں نے کیا قاضی فائض سے مدد لی اور الیکشن میں سے تحریک انصاف کو نکالا بلے کا نشان چھینا پارٹی کے لوگوں کو زبردستی پریس کانفرنس کروا کے پارٹی سے نکالا عمران خان کو اس دوران جیلوں میں ڈالا 31 سال کی سزائیں دی عدت جیسے کیس بنا دیے سائفر کا کیس بنا دیا توشہ خانہ کے جھوٹے کیس بنا دیے اب اس دوران یہ لوگ بیانیہ بناتے رہے کہ عمران خان کی کرپشن جنرل فیض کی امد سے پہلے موجود تھی جو دکھائی گئی اس وجہ سے عمران خان نے موجودہ طاقتور لوگوں کو بدلا لیکن اج تک وہ کرپشن کے ثبوت کبھی کسی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اگر وہ کرپشن ہوتی تو پھر انہیں عدت کے کیس کیوں بنانا پڑتا سائفر روتوشہ خانہ کیوں بنانے پڑتے ہیں سب سے پہلا کیس وہی ہوتا لیکن اس میں کچھ نہیں تھا انہیں پتہ ہے وہ عدالت میں اڑ جائیں گے جھوٹے کیس بنا کے 200 سے زائد عمران خان کو انہوں نے جیل میں ڈال دیا لیکن خان نہ تو نواز شریف نکلا نہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان کی عوام خان کی دیوانی نکلی انہوں نے الیکشن میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر گاجر مولیاں بینگن پر اس کے امیدوار جتوا کے پارٹی سب سے بڑی پارٹی بھی بنا دی اور لوگوں نے پھر مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کر دی اب پاکستان اس وقت ایک ایسے موڑ پر اگیا ہے کہ اب فیصلہ کن مراحل کی طرف ہے ایک طرف 76 سال کی طاقت کا راج ہے اور دوسری طرف 24 کروڑ عوام ہے اس سارے مرحلے میں پاکستان کا بہت نقصان ہوا یہ ریجیم چینج اپریشن لگ بھگ 120 ارب ڈالر کا پڑا معیشت 6.2 سے مائنس پہ چلی گئی لوگوں کی زندگی بد سے بدتر ہوگی ادھے سے زیادہ پاکستان غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا صنعتیں بند ہو گئیں کارخانے بند ہو گئے تاجروں کا کام ختم کسان فصل اگانے سے قاصر ہو گیا ملک میں 16 لاکھ لوگ ملک چھوڑ گئے سرمایہ یہاں سے نکل کر دبئی چلا گیا لیکن یہ انا اور ضد کا جو بت بنا ہوا ہے یہ خوف کے بت میں بدل کر عوام کے اوپر طاری کیا گیا خاص طور پر پنجاب میں ظلم و بربریت کی ایک تاریخ رقم ہو گئی اس دوران عدلیہ کے اچھے جج کھڑے ہوئے ججز پر حملے شروع ہو گئے اسلام اباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے خفیہ اداروں کا کردار بے نقاب کر دیا اور اس کے بعد پھر یہ معاملہ تمام عدالتوں تک پہنچ چکا ہے عمران خان کے کیسز پر جج اپنے ضمیر کے اور عوام کے تیور کو دیکھتے ہوئے فیصلہ سناتے ہیں عمران خان کے اوپر تمام کیس تقریبا ختم ہوئے نو مئی سمیت 95 فیصد لوگوں کے رہائی ہو گئی تحریک انصاف دوبارہ عوام میں مقبول ہو گئی پہلے سے زیادہ مقبول ہو گئی عمران خان کی طاقت بڑھ گئی اور اب اس وقت یہ ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں کہ یہ سارا معاملہ جو ایک عرصے سے چلایا جا رہا ہے ہر حکومت کے دور میں اسے اب کیسے چلایا جائے لیکن اب حالات کچھ ایسے ہیں انٹرنیشنل دنیا کا دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے دنیا میں بھی تبدیلی اتی جا رہی ہے معیشت کی تباہی بربادی کا سلسلہ بھی کنٹرول سے باہر دیوالیہ پن کے قریب پہنچتے جا رہے ہیں اور عمران خان کی طاقت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اج 90 فیصد پاکستانی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور دو سال بعد جو سمجھانی کے جلسہ ہوا اس نے انہیں یہ ثابت کر دیا کہ خان عوام کی جڑوں میں موجود ہے کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس میں عمران خان اور پاکستان کی قوم کی مزاحمت نظر ائی وجہ صرف یہ تھی کہ عمران خان ڈٹ کر کھڑا ہوا وہ اسٹیبلشمنٹ نے نہیں بنایا تھا اگر اسٹیبلشمنٹ نے بنایا ہوتا تو وہ کب کا ٹوٹ گیا ہوتا جیسے نواز شریف چند ماہ میں ٹوٹ گیا بے نظیر بھٹو ملک سے بھاگی نہیں زرداری ٹوٹ گیا بڑے بڑے رہنما ان کے سامنے نہیں کھڑے ہوئے لیکن عمران خان اس ظلم فستائیت غیر قانونی معاملات پر بھی ڈٹ کر لڑائی کر رہا ہے اور مقصد ایک ہی ہے کہ ملک کو ائین قانون اور جمہوریت میں واپس لانا ہے اگر عمران خان اس جنگ میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان کی ائندہ انے والی نسلیں بہتر مستقبل کی طرف چلی جائیں گی اور اگر خدانخواستہ عمران خان ناکام ہوا تو پھر پاکستان کے حالات کبھی بھی ترقی کی طرف نہیں جا سکیں گے یہ صومالیہ یوگنڈا کانگو شمالی کوریا میانمار کی طرح ایک ملک کے طور پر تو رہے گا لیکن اس ملک کی عوام کبھی ترقی نہیں کر سکے گی چاہے وہ کھیل ہوں معیشت ہو سیاست ہو صحافت ہو عدالت ہو یہ ہر معاملے میں پستی پر ہی رہیں گے تو اب سارا معاملہ پاکستان کی عوام کے ہاتھ میں عمران خان کی جو اب سٹریٹ پاور کی اخری کال سامنے ارہی ہے کہ اب یہ کھیل دوبارہ مدت ملازمت توسیع کی طرف جا رہا ہے طاقتور لوگوں کو مزید وقت چاہیے ملک کو اجاڑنے کے لیے اور عمران خان اخری کال دے کر پنجاب کے جلسے میں اس پورے کھیل کو اختتام کی طرف لے کے جا رہے ہیں یہ سارے مرحلے میں پاکستانی مل کر یہ دعا کریں کہ اللہ پاکستان پر اپنا رحم و کرم کرے ان لوگوں کو ہدایت دے

شیئر کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں